اور ہی وہ لوگ ہیں جن کو ہے یزداں کی تلاش
مجھ کو انسانوں کی دنیا میں ہے انساں کی تلاش
میں نہیں کہتا کہ دنیا میں ہے الفت کی کمی
مجھ کو ہے لیکن اسی جنس فراواں کی تلاش
بار خاطر ہے حیات پر سکون و پر جمود
میں وہ ساحل ہوں جسے رہتی ہے طوفاں کی تلاش
اس جہاں کو جب بنا سکتا ہے وہ رشک ارم
جانے کیوں انساں کو ہے فردوس ویراں کی تلاش
اے سکون جاں مجھے ایسی ہی ہے تیری طلب
چشم نم کو جس طرح رہتی ہے داماں کی تلاش
غزل
اور ہی وہ لوگ ہیں جن کو ہے یزداں کی تلاش
نظیر صدیقی