گھروں میں سبزہ چھتوں پر گل سحاب لیے
ہوائیں پھیل گئیں نقش و رنگ آب لیے
شب سیاہ ڈھلی صبح آشکار ہوئی
جبیں پہ زخم لیے ہاتھ میں گلاب لیے
میں ایک ڈھلتا سا سایا زمیں کے قدموں میں
تو ڈھونڈنے مجھے نکلا ہے آفتاب لیے
گزر گیا کوئی پہچانتا ہوا مجھ کو
پرانی یادوں کی شمعیں پس نقاب لیے
بکھر کے جاتا کہاں تک کہ میں تو خوشبو تھا
ہوا چلی تھی مجھے اپنے ہم رکاب لیے
ابھر رہے ہیں کئی ہاتھ شب کے پردے سے
کوئی ستارہ لیے کوئی ماہتاب لیے
ہوائیں پھرتی ہیں رستوں میں بال کھولے ہوئے
یہ رات سر پہ کھڑی ہے کوئی عذاب لیے
عجب نہیں کہیں تعبیر کوئی مل جائے
بھٹک رہا ہوں گرہ میں ہجوم خواب لیے
غزل
گھروں میں سبزہ چھتوں پر گل سحاب لیے
نذیر قیصر