خاک اگاتی ہیں صورتیں کیا کیا
آئنوں میں ہیں حیرتیں کیا کیا
عمر کے بے ثبات صفحوں پر
لکھ رہا ہوں عبارتیں کیا کیا
کھلتے جاتے ہیں باب حرف و صدا
ہو رہی ہیں زیارتیں کیا کیا
مڑ کے دیکھوں تو نقش پا کی طرح
ہم سفر ہیں روایتیں کیا کیا
لفظ آواز اور سائے میں
ڈھونڈھتا ہوں شباہتیں کیا کیا
خواب سے پیکر معانی تک
رونما ہیں علامتیں کیا کیا
رنگ لائی ہے حسرت تعمیر
گر رہی ہیں عمارتیں کیا کیا
آدمی مرثیوں کی صورت میں
لکھ رہا ہے بشارتیں کیا کیا
غزل
خاک اگاتی ہیں صورتیں کیا کیا
نذیر قیصر