میری آنکھوں کو مری شکل دکھا دے کوئی
کاش مجھ کو مرا احساس دلا دے کوئی
غرض اس سے نہیں وہ کون ہے کس بھیس میں ہے
میں کہاں پر ہوں مجھے میرا پتا دے کوئی
ڈھونڈھتا پھرتا ہوں یوں اپنے ہی قدموں کے نشاں
جیسے مجھ کو مری نظروں سے چھپا دے کوئی
دل کی تختی سر بازار لیے پھرتا ہوں
کاش اس پر تری تصویر بنا دے کوئی
یوں تجھے دیکھ کے چونک اٹھتی ہیں سوئی یادیں
جیسے سناٹے میں آواز لگا دے کوئی
دوسری سمت ہیں خوشبو کے افق کی صبحیں
رنگ کے کہر کی دیوار گرا دے کوئی
سانس روکے ہوئے بیٹھے ہیں مکانوں میں مکیں
جانے کب اور کسے آ کے صدا دے کوئی
غزل
میری آنکھوں کو مری شکل دکھا دے کوئی
نذیر قیصر