مسلسل یاد آتی ہے چمک چشم غزالاں کی
اکیلی ذات ہے اور رات ہے جنگل بیاباں کی
ذرا دیکھو ہوائے صبح کیسے کھینچ لائی ہے
اکیلی پنکھڑی میں دل کشی سارے گلستاں کی
انہیں گلیوں میں کھلتے تھے ملاقاتوں کے دروازے
انہیں گلیوں میں چلتی ہیں ہوائیں شام ہجراں کی
کوئی ذرے کو ذرہ ہی سمجھ کر چھوڑ دیتا ہے
کسی کو سوجھتی ہے اس سے تعمیر بیاباں کی
یہ وہ موسم ہے جس میں کوئی پتا بھی نہیں ہلتا
دل تنہا اٹھاتا ہے صعوبت شام ہجراں کی
یہی کافی ہے دل سے مدتوں کا بوجھ تو اترا
چلو اس چشم گریاں نے کوئی مشکل تو آساں کی
ستارے درد کی آواز سے غافل نہیں رہتے
دم آہو سے روشن مشعلیں ریگ بیاباں کی
غزل
مسلسل یاد آتی ہے چمک چشم غزالاں کی
احمد مشتاق