EN हिंदी
ہم دن کے پیامی ہیں مگر کشتۂ شب ہیں | شیح شیری
hum din ke payami hain magar kushta-e-shab hain

غزل

ہم دن کے پیامی ہیں مگر کشتۂ شب ہیں

احمد ندیم قاسمی

;

ہم دن کے پیامی ہیں مگر کشتۂ شب ہیں
اس حال میں بھی رونق عالم کا سبب ہیں

ظاہر میں ہم انسان ہیں مٹی کے کھلونے
باطن میں مگر تند عناصر کا غضب ہیں

ہیں حلقۂ زنجیر کا ہم خندۂ جاوید
زنداں میں بسائے ہوئے اک شہر طرب ہیں

چٹکی ہوئی یہ حسن گریزاں کی کلی ہے
یا شدت جذبات سے کھلتے ہوئے لب ہیں

آغوش میں مہکوگے دکھائی نہیں دوگے
تم نکہت گلزار ہو ہم پردۂ شب ہیں