ہم دن کے پیامی ہیں مگر کشتۂ شب ہیں
اس حال میں بھی رونق عالم کا سبب ہیں
ظاہر میں ہم انسان ہیں مٹی کے کھلونے
باطن میں مگر تند عناصر کا غضب ہیں
ہیں حلقۂ زنجیر کا ہم خندۂ جاوید
زنداں میں بسائے ہوئے اک شہر طرب ہیں
چٹکی ہوئی یہ حسن گریزاں کی کلی ہے
یا شدت جذبات سے کھلتے ہوئے لب ہیں
آغوش میں مہکوگے دکھائی نہیں دوگے
تم نکہت گلزار ہو ہم پردۂ شب ہیں
غزل
ہم دن کے پیامی ہیں مگر کشتۂ شب ہیں
احمد ندیم قاسمی