EN हिंदी
یہ تنہا رات یہ گہری فضائیں | شیح شیری
ye tanha raat ye gahri fazaen

غزل

یہ تنہا رات یہ گہری فضائیں

احمد مشتاق

;

یہ تنہا رات یہ گہری فضائیں
اسے ڈھونڈیں کہ اس کو بھول جائیں

خیالوں کی گھنی خاموشیوں میں
گھلی جاتی ہیں لفظوں کی صدائیں

یہ رستے رہروؤں سے بھاگتے ہیں
یہاں چھپ چھپ کے چلتی ہیں ہوائیں

یہ پانی خامشی سے بہہ رہا ہے
اسے دیکھیں کہ اس میں ڈوب جائیں

جو غم جلتے ہیں شعروں کی چتا میں
انہیں پھر اپنے سینے سے لگائیں

چلو ایسا مکاں آباد کر لیں
جہاں لوگوں کی آوازیں نہ آئیں