یہ سارا قضیہ تو ہم سے ہے اس سے تم کو کیا
تم اپنے ایک طرف ہو رہو ہوا سو ہوا
نین سکھ
موت سے آگے تک کے منظر دیکھے ہیں
تنہائی سے یوں ہی ڈر نہیں جاتا میں
نعیم گیلانی
اتنی دیر سمیٹوں سارے دکھ تیرے
جتنی دیر اے دوست بکھر نہیں جاتا میں
نعیم گیلانی
بڑھنے لگی یقین و گماں میں جو کشمکش
وعدہ بھی صبح و شام پہ ٹلتا چلا گیا
نیر سلطانپوری
دی ہے نیرؔ مجھ کو ساقی نے یہ کیسی خاص مے
سب کی نظریں اٹھ رہی ہیں میرے ساغر کی طرف
نیر سلطانپوری
پہونچا نہ تھا یقین کی منزل پہ میں ابھی
میرا خیال مجھ سے بھی آگے نکل گیا
نیر سلطانپوری
سینے پہ کتنے داغ لیے پھر رہا ہوں میں
زخموں کا ایک باغ لیے پھر رہا ہوں میں
نیر سلطانپوری