EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

یہ سارا قضیہ تو ہم سے ہے اس سے تم کو کیا
تم اپنے ایک طرف ہو رہو ہوا سو ہوا

نین سکھ




موت سے آگے تک کے منظر دیکھے ہیں
تنہائی سے یوں ہی ڈر نہیں جاتا میں

نعیم گیلانی




اتنی دیر سمیٹوں سارے دکھ تیرے
جتنی دیر اے دوست بکھر نہیں جاتا میں

نعیم گیلانی




بڑھنے لگی یقین و گماں میں جو کشمکش
وعدہ بھی صبح و شام پہ ٹلتا چلا گیا

نیر سلطانپوری




دی ہے نیرؔ مجھ کو ساقی نے یہ کیسی خاص مے
سب کی نظریں اٹھ رہی ہیں میرے ساغر کی طرف

نیر سلطانپوری




پہونچا نہ تھا یقین کی منزل پہ میں ابھی
میرا خیال مجھ سے بھی آگے نکل گیا

نیر سلطانپوری




سینے پہ کتنے داغ لیے پھر رہا ہوں میں
زخموں کا ایک باغ لیے پھر رہا ہوں میں

نیر سلطانپوری