شکوہ جو میرا اشک میں ڈھلتا چلا گیا
سارا غبار دل کا نکلتا چلا گیا
روشن کیا امید نے یوں جادۂ حیات
ہر گام پہ چراغ سا جلتا چلا گیا
راس آ سکی سکوں کو نا تدبیر ضبط غم
آنکھوں سے خون دل کا ابلتا چلا گیا
جس پر مرے فریب تمنا کو ناز تھا
وہ دن بھی انتظار میں ڈھلتا چلا گیا
پچھلے پہر جو شمع نے کھینچی اک آہ سرد
چہرے کا ان کے رنگ بدلتا چلا گیا
بڑھنے لگی یقین و گماں میں جو کشمکش
وعدہ بھی صبح و شام پہ ٹلتا چلا گیا
وہ نوحۂ الم ہو کہ نیرؔ نوائے شوق
ہر نغمہ ایک ساز میں ڈھلتا چلا گیا
غزل
شکوہ جو میرا اشک میں ڈھلتا چلا گیا
نیر سلطانپوری