EN हिंदी
خیر لایا تو جنوں دیوار سے در کی طرف | شیح شیری
KHair laya to junun diwar se dar ki taraf

غزل

خیر لایا تو جنوں دیوار سے در کی طرف

نیر سلطانپوری

;

خیر لایا تو جنوں دیوار سے در کی طرف
اب نظر جانے لگی باہر سے اندر کی طرف

کشتئ امید کے ہر بادباں اڑنے لگے
کس نے رخ موڑا ہواؤں کا سمندر کی طرف

یوں بھی ہوتا ہے مدارات جنوں کے شوق میں
پھول جیسے ہاتھ اٹھ جاتے ہیں پتھر کی طرف

ہم نے سمجھے تھے کہ یہ ہوگا مآل کار عشق
رخ کیا باد بہاری نے مرے گھر کی طرف

دی ہے نیرؔ مجھ کو ساقی نے یہ کیسی خاص مے
سب کی نظریں اٹھ رہی ہیں میرے ساغر کی طرف