EN हिंदी
سینے پہ کتنے داغ لیے پھر رہا ہوں میں | شیح شیری
sine pe kitne dagh liye phir raha hun main

غزل

سینے پہ کتنے داغ لیے پھر رہا ہوں میں

نیر سلطانپوری

;

سینے پہ کتنے داغ لیے پھر رہا ہوں میں
زخموں کا ایک باغ لیے پھر رہا ہوں میں

ڈر ہے کہ تیرگی میں قدم ڈگمگا نہ جائے
اک شہر بے چراغ لیے پھر رہا ہوں میں

ساقی نہ پوچھ آج کے شیشہ گروں کا حال
ٹوٹا ہوا ایاغ لیے پھر رہا ہوں میں

کیا جانے کس کے نام ہے یہ نامۂ کرم
ملتا نہیں سراغ لیے پھر رہا ہوں میں

پوچھے نہ جس کو حال نہ مستقبل حسیں
ماضی کا وہ دماغ لیے پھر رہا ہوں میں

نیرؔ ہو ایسے دور میں کیا روشنی کی بات
بن تیل کا چراغ لیے پھر رہا ہوں میں