EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

اب بچ کے کہاں جائے ہر اک سمت ہے دیوار
بیوی مرے پیچھے ہے تو بچہ مرے آگے

نظر برنی




اس چشم سیہ مست پہ گیسو ہیں پریشاں
مے خانے پہ گھنگھور گھٹا کھیل رہی ہے

نظر حیدرآبادی




اسی خیال میں ہر شام انتظار کٹی
وہ آ رہے ہیں وہ آئے وہ آئے جاتے ہیں

نظر حیدرآبادی




مٹی کی آواز سنی جب مٹی نے
سانسوں کی سب کھینچا تانی ختم ہوئی

نذر جاوید




وار ہر ایک مرے زخم کا حامل آیا
اپنی تلوار کے میں خود ہی مقابل آیا

نذر جاوید




یہ تو اے جاویدؔ گزرے موسموں کی راکھ ہے
آخرش کیا ڈھونڈھتا ہے تو خس و خاشاک میں

نذر جاوید




زندہ رہنے کے تقاضوں نے مجھے مار دیا
سر پہ جاویدؔ عجب عہد مسائل آیا

نذر جاوید