EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

جب بھی لوٹا گاؤں کے بازار سے
مجھ کو سب بچوں نے دیکھا پیار سے

نواب احسن




خوف و دہشت سے لب نہیں کھلتے
ورنہ قاتل مری نگاہ میں ہے

نواب احسن




شب فراق کی تنہائیوں میں تیرا خیال
مرے وجود سے کرتا رہا جدا مجھ کو

نواب احسن




اس نے تو چھینا تھا میرے جسم سے میرا لباس
جب پہن کر اس نے دیکھا تو قبا ڈھیلی ملی

نواب احسن




احساس مجھ کو اتنا بھی اب تو نہیں نوابؔ
میں جی رہا ہوں آج بھی کہ مر گیا ہوں میں

نواب شاہ آبادی




جانے کیوں دوزخ سے بد تر ہو گئے حالات آج
رشک جنت کل تلک ہندوستاں میرا بھی تھا

نواب شاہ آبادی




بھوکے بچوں کی تسلی کے لیے
ماں نے پھر پانی پکایا دیر تک

نواز دیوبندی