دل ہی تو ہے نگاہ کرم سے پگھل گیا
شکوہ لبوں پہ آ کے تبسم میں ڈھل گیا
پہونچا نہ تھا یقین کی منزل پہ میں ابھی
میرا خیال مجھ سے بھی آگے نکل گیا
خلوت بنی ہوئی تھی تری انجمن مگر
میں آ گیا تو بزم کا نقشہ بدل گیا
واں مطمئن کرم کہ دیا ہے بقدر ظرف
یاں اضطراب شوق میں ساغر بدل گیا
ہے چشم التفات کو فکر شکست دل
شاید حریف کوئی نئی چال چل گیا
پنہاں تھا لغزشوں میں بھی احساس آگہی
میں کیا سنبھل گیا کہ زمانہ سنبھل گیا
خیرہ ہے بزم یار میں نیرؔ نگاہ شوق
شمعیں جلیں کہ دامن نظارہ جل گیا
غزل
دل ہی تو ہے نگاہ کرم سے پگھل گیا
نیر سلطانپوری