EN हिंदी
دل ہی تو ہے نگاہ کرم سے پگھل گیا | شیح شیری
dil hi to hai nigah-e-karam se pighal gaya

غزل

دل ہی تو ہے نگاہ کرم سے پگھل گیا

نیر سلطانپوری

;

دل ہی تو ہے نگاہ کرم سے پگھل گیا
شکوہ لبوں پہ آ کے تبسم میں ڈھل گیا

پہونچا نہ تھا یقین کی منزل پہ میں ابھی
میرا خیال مجھ سے بھی آگے نکل گیا

خلوت بنی ہوئی تھی تری انجمن مگر
میں آ گیا تو بزم کا نقشہ بدل گیا

واں مطمئن کرم کہ دیا ہے بقدر ظرف
یاں اضطراب شوق میں ساغر بدل گیا

ہے چشم التفات کو فکر شکست دل
شاید حریف کوئی نئی چال چل گیا

پنہاں تھا لغزشوں میں بھی احساس آگہی
میں کیا سنبھل گیا کہ زمانہ سنبھل گیا

خیرہ ہے بزم یار میں نیرؔ نگاہ شوق
شمعیں جلیں کہ دامن نظارہ جل گیا