EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

اب ہواؤں کے دام کھلنے ہیں
خوشبوؤں کا تو ہو چکا سودا

نوین سی چترویدی




بغیر پوچھے مرے سر میں بھر دیا مذہب
میں روکتا بھی تو کیسے کہ میں تو بچہ تھا

نوین سی چترویدی




بیٹھے بیٹھے کا سفر صرف ہے خوابوں کا فتور
جسم دروازے تک آئے تو گلی تک پہنچے

نوین سی چترویدی




بھلا دیا ہے جو تو نے تو کچھ ملال نہیں
کئی دنوں سے مجھے بھی ترا خیال نہیں

نوین سی چترویدی




ہم تو اس کے ذہن کی عریانیوں پر مر مٹے
داد اگرچہ دے رہے ہیں جسم اور پوشاک پر

نوین سی چترویدی




کس کو فرصت ہے جو حرفوں کی حرارت سمجھائے
بات آسانی تک آئے تو سبھی تک پہنچے

نوین سی چترویدی




کچھ بھنور یوں اچٹ پڑے تھے جیوں
خودکشی پر ہو کوئی آمادہ

نوین سی چترویدی