ابتدا سے آج تک ناطقؔ کی یہ ہے سرگزشت
پہلے چپ تھا پھر ہوا دیوانہ اب بے ہوش ہے
ناطقؔ لکھنوی
اک داغ دل نے مجھ کو دیئے بے شمار داغ
پیدا ہوئے ہزار چراغ اس چراغ سے
ناطقؔ لکھنوی
مری جانب سے ان کے دل میں کس شکوے پہ کینہ ہے
وہ شکوہ جو زباں پر کیا ابھی دل میں نہیں آیا
ناطقؔ لکھنوی
محبت آشنا دل مذہب و ملت کو کیا جانے
ہوئی روشن جہاں بھی شمع پروانہ وہیں آیا
ناطقؔ لکھنوی
ان کے لب پر ذکر آیا بے حجابانہ میرا
منزل تکمیل تک پہونچا اب افسانہ میرا
ناطقؔ لکھنوی
آبادیوں میں دشت کا منظر بھی آئے گا
گزرو گے شہر سے تو مرا گھر بھی آئے گا
نوشاد علی
اک بے قرار دل سے ملاقات کیجیے
جب مل گئے ہیں آپ تو کچھ بات کیجیے
نوشاد علی