تمام خشک دیاروں کو آب دیتا تھا
ہمارا دل بھی کبھی آسمان جیسا تھا
عجیب لگتی ہے محنت کشوں کی بد حالی
یہاں تلک تو مقدر کو ہار جانا تھا
نئے سفر کا ہر اک موڑ بھی نیا تھا مگر
ہر ایک موڑ پہ کوئی صدائیں دیتا تھا
بغیر پوچھے مرے سر میں بھر دیا مذہب
میں روکتا بھی تو کیسے کہ میں تو بچہ تھا
کوئی بھی شکل ابھرنا محال تھا یارو
ہمارے سایہ کے اوپر شجر کا سایہ تھا
تمام عمر خود اپنے پہ ظلم ڈھاتے رہے
محبتوں کا اثر تھا کہ کوئی نشہ تھا
بڑا سکون ملا اس سے بات کر کے ہمیں
وہ شخص جیسے کسی جھیل کا کنارہ تھا
بس ایک وار میں دنیا نے کر دیے ٹکڑے
مری طرح سے مرا عشق بھی نہتا تھا
علاوہ اس کے مجھے اور کچھ ملال نہیں
وہ مان جائے گا اس بات کا بھروسہ تھا
غزل
تمام خشک دیاروں کو آب دیتا تھا
نوین سی چترویدی