EN हिंदी
ہم وہی ناداں ہیں جو خوابوں کو دھر کر تاک پر | شیح شیری
hum wahi nadan hain jo KHwabon ko dhar kar tak par

غزل

ہم وہی ناداں ہیں جو خوابوں کو دھر کر تاک پر

نوین سی چترویدی

;

ہم وہی ناداں ہیں جو خوابوں کو دھر کر تاک پر
جاگتے ہی روز رکھ دیتا ہے خود کو چاک پر

دل وہ دریا ہے جسے موسم بھی کرتا ہے تباہ
کس طرح الزام دھر دیں ہم کسی تیراک پر

ہم تو اس کے ذہن کی عریانیوں پر مر مٹے
داد اگرچہ دے رہے ہیں جسم اور پوشاک پر

ہم بخوبی جانتے ہیں بس ہمارے جاتے ہی
کیسے کیسے گل کھلیں گے اس بدن کی خاک پر

بات اور بیوہار ہی سے جان سکتے ہیں اسے
علم کی املا لکھی جاتی نہیں پوشاک پر