ہم وہی ناداں ہیں جو خوابوں کو دھر کر تاک پر
جاگتے ہی روز رکھ دیتا ہے خود کو چاک پر
دل وہ دریا ہے جسے موسم بھی کرتا ہے تباہ
کس طرح الزام دھر دیں ہم کسی تیراک پر
ہم تو اس کے ذہن کی عریانیوں پر مر مٹے
داد اگرچہ دے رہے ہیں جسم اور پوشاک پر
ہم بخوبی جانتے ہیں بس ہمارے جاتے ہی
کیسے کیسے گل کھلیں گے اس بدن کی خاک پر
بات اور بیوہار ہی سے جان سکتے ہیں اسے
علم کی املا لکھی جاتی نہیں پوشاک پر
غزل
ہم وہی ناداں ہیں جو خوابوں کو دھر کر تاک پر
نوین سی چترویدی