غم کی ڈھلوان تک آئے تو خوشی تک پہنچے
آدمی گھاٹ تک آئے تو ندی تک پہنچے
عشق میں دل کے علاقے سے گزرتی ہے بہار
درد احساس تک آئے تو نمی تک پہنچے
اف یہ پہرے ہیں کہ ہیں پچھلے جنم کے دشمن
بھنورا گلدان تک آئے تو کلی تک پہنچے
نیند میں کس طرح دیکھے گا سحر یار مرا
وہم کے چھور تک آئے تو کڑی تک پہنچے
کس کو فرصت ہے جو حرفوں کی حرارت سمجھائے
بات آسانی تک آئے تو سبھی تک پہنچے
بیٹھے بیٹھے کا سفر صرف ہے خوابوں کا فتور
جسم دروازے تک آئے تو گلی تک پہنچے
غزل
غم کی ڈھلوان تک آئے تو خوشی تک پہنچے
نوین سی چترویدی