اور تعارف ہمارا ہو بھی کیا
اک شناور جو ڈوب تک نہ سکا
کچھ بھنور یوں اچٹ پڑے تھے جیوں
خودکشی پر ہو کوئی آمادہ
اک بگولے کی بات تھوڑی ہے
ہر بگولے نے گرد کو روندا
بلبلے سطح آب کو چھو کر
ہم کو دنیا کا دے گئے نقشہ
وہ تو سانسوں نے شامیں سلگائیں
آدمی کو یہ علم ہی کب تھا
اب ہواؤں کے دام کھلنے ہیں
خوشبوؤں کا تو ہو چکا سودا
اب وہ خود کو سمجھتے ہیں سورج
جن ستاروں کا چاند ماما تھا
غزل
اور تعارف ہمارا ہو بھی کیا
نوین سی چترویدی