EN हिंदी
بھلا دیا ہے جو تو نے تو کچھ ملال نہیں | شیح شیری
bhula diya hai jo tu ne to kuchh malal nahin

غزل

بھلا دیا ہے جو تو نے تو کچھ ملال نہیں

نوین سی چترویدی

;

بھلا دیا ہے جو تو نے تو کچھ ملال نہیں
کئی دنوں سے مجھے بھی ترا خیال نہیں

ابھی ابھی تو ستارے زمیں پہ اترے ہیں
ابھی سے بزم سے اپنی مجھے نکال نہیں

ہے درد تو ہی دوا تو حکیم تو ہی مریض
ترا کمال یہی ہے تری مثال نہیں

فقط یقین پہ چلتا ہے زندگی کا سفر
وگرنہ کون ہے جو ڈھو رہا سوال نہیں

خموشیوں کی اسے کیوں نہ انتہا کہہ دوں
زباں خموش ہیں آنکھوں میں بھی سوال نہیں