EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

ظاہر نہ تھا نہیں سہی لیکن ظہور تھا
کچھ کیوں نہ تھا جہان میں کچھ تو ضرور تھا

ناطق گلاوٹھی




ذکر شراب ناب پہ واعظ اکھڑ گیا
بولے تھے اچھی بات بھلے آدمی سے ہم

ناطق گلاوٹھی




آزادیوں کا حق نہ ادا ہم سے ہو سکا
انجام یہ ہوا کہ گرفتار ہو گئے

ناطقؔ لکھنوی




اے شمع تجھ پہ رات یہ بھاری ہے جس طرح
میں نے تمام عمر گزاری ہے اس طرح

ناطقؔ لکھنوی




دل ہے کس کا جس میں ارماں آپ کا رہتا نہیں
فرق اتنا ہے کہ سب کہتے ہیں میں کہتا نہیں

ناطقؔ لکھنوی




دل رہے یا نہ رہے زخم بھرے یا نہ بھرے
چارہ سازوں کی خوشامد مجھے منظور نہیں

ناطقؔ لکھنوی




دو عالم سے گزر کے بھی دل عاشق ہے آوارہ
ابھی تک یہ مسافر اپنی منزل پر نہیں آیا

ناطقؔ لکھنوی