اس کڑی دھوپ میں سایہ کر کے
تو کہاں ہے مجھے تنہا کر کے
میں تو ارزاں تھا خدا کی مانند
کون گزرا مرا سودا کر کے
تیرگی ٹوٹ پڑی ہے مجھ پر
میں پشیماں ہوں اجالا کر کے
لے گیا چھین کے آنکھیں میری
مجھ سے کیوں وعدۂ فردا کر کے
لو ارادوں کی بڑھا دی شب نے
دن گیا جب مجھے پسپا کر کے
کاش یہ آئینۂ ہجر و وصال
ٹوٹ جائے مجھے اندھا کر کے
ہر طرف سچ کی دہائی ہے نصیرؔ
شعر لکھتے رہو سچا کر کے
غزل
اس کڑی دھوپ میں سایہ کر کے
نصیر ترابی