میں بھی اے کاش کبھی موج صبا ہو جاؤں
اس توقع پہ کہ خود سے بھی جدا ہو جاؤں
ابر اٹھے تو سمٹ جاؤں تری آنکھوں میں
دھوپ نکلے تو ترے سر کی ردا ہو جاؤں
آج کی رات اجالے مرے ہمسایہ ہیں
آج کی رات جو سو لوں تو نیا ہو جاؤں
اب یہی سوچ لیا دل میں کہ منزل کے بغیر
گھر پلٹ آؤں تو میں آبلہ پا ہو جاؤں
پھول کی طرح مہکتا ہوں تری یاد کے ساتھ
یہ الگ بات کہ میں تجھ سے خفا ہو جاؤں
جس کے کوچے میں برستے رہے پتھر مجھ پر
اس کے ہاتھوں کے لیے رنگ حنا ہو جاؤں
آرزو یہ ہے کہ تقدیس ہنر کی خاطر
تیرے ہونٹوں پہ رہوں حمد و ثنا ہو جاؤں
مرحلہ اپنی پرستش کا ہو درپیش تو میں
اپنے ہی سامنے مائل بہ دعا ہو جاؤں
تیشۂ وقت بتائے کہ تعارف کے لیے
کن پہاڑوں کی بلندی پہ کھڑا ہو جاؤں
ہائے وہ لوگ کہ میں جن کا پجاری ہوں نصیرؔ
ہائے وہ لوگ کہ میں جن کا خدا ہو جاؤں
غزل
میں بھی اے کاش کبھی موج صبا ہو جاؤں
نصیر ترابی