اتنا مانوس ہے دل آپ کے افسانے سے
اب کسی طور بہلتا نہیں بہلانے سے
جام و مینا کے تعین سے ہے بالا ساقی
ظرف دیکھا نہیں جاتا کسی پیمانے سے
آؤ تجدید وفا پھر سے کریں ہم ورنہ
بات کچھ اور الجھ جائے گی سلجھانے سے
ہے سمجھنا تو محبت سے گزر اے ہمدم
بات آئے گی سمجھ میں نہ یوں سمجھانے سے
اب نہ چاہیں گے کسی اور کو تسلیم مگر
فائدہ کیا ہے مرے سر کی قسم کھانے سے
میں تہی ہوش سہی آپ کا ارشاد بجا
آپ بے کار الجھنے لگے دیوانے سے
آرزوؔ شکوہ بہ لب ہو تو رہے ہو لیکن
فائدہ گزری ہوئی بات کو دہرانے سے
غزل
اتنا مانوس ہے دل آپ کے افسانے سے
نصیر آرزو