جگر میں درد تو ہے دل میں اضطراب تو ہے
تمہارے غم میں مری زندگی خراب تو ہے
میں صرف تیرہ شبی پر یقیں نہیں رکھتا
ابھی زمیں پہ چمکنے کو آفتاب تو ہے
ابھی سرور کے اسباب پائے جاتے ہیں
کہ مے کدے میں صراحی تو ہے شراب تو ہے
ہر ایک شخص زمانے میں انقلابی ہے
کہ انقلاب نہیں فکر انقلاب تو ہے
گزر رہی ہے تصور میں زندگی اپنی
اب آرزوؔ نہ سہی آرزو کا خواب تو ہے
غزل
جگر میں درد تو ہے دل میں اضطراب تو ہے
نصیر آرزو