ترے خیال، ترے خواب، تیرے نام کے ساتھ
بنی ہے خاک مری کتنے اہتمام کے ساتھ
بہت سے پھول تھے اور سارے اچھے رنگوں کے
صبا نے بھیجے تھے جو کل ترے پیام کے ساتھ
نظر ٹھہرتی نہ تھی اس پہ اور خود پر بھی
میں آئینے میں تھی کل ایک لالہ فام کے ساتھ
ترے خیال سے روشن ہے سر زمین سخن
کہ جیسے زینت شب ہو مہ تمام کے ساتھ
پھر آ گئی ہے مرے در پہ کیا وہی دنیا؟
میں کر کے آئی تھی رخصت جسے سلام کے ساتھ
سنا ہے پھول جھڑے تھے جہاں ترے لب سے
وہاں بہار اترتی ہے روز شام کے ساتھ
خوشی کے واسطے کب کوئی دن مقرر تھا
مگر یہ دل میں رکی ہے ترے خرام کے ساتھ

غزل
ترے خیال، ترے خواب، تیرے نام کے ساتھ
نرجس افروز زیدی