مرے لبوں پہ آتے آتے کوئی بات تھک گئی
یہ کیا ہوا کہ چلتے چلتے کائنات تھک گئی
میں روشنی پہ زندگی کا نام لکھ کے آ گیا
اسے مٹا مٹا کے یہ سیاہ رات تھک گئی
میں زندگی کے فاصلوں کو ناپنے نکل پڑا
قریب منزل سفر مری حیات تھک گئی
بڑا کٹھن ہے دوستو خود اپنی ذات کا سفر
کبھی کبھی تو یوں ہوا کہ اپنی ذات تھک گئی
رہے جنوں کے حوصلے بلند سے بلند تر
خود آگہی ہزار بار دے کے مات تھک گئی
غزل
مرے لبوں پہ آتے آتے کوئی بات تھک گئی
نسیم انصاری