EN हिंदी
ہنوز رات ہے جلنا پڑے گا اس کو بھی | شیح شیری
hunuz raat hai jalna paDega usko bhi

غزل

ہنوز رات ہے جلنا پڑے گا اس کو بھی

نجم الثاقب

;

ہنوز رات ہے جلنا پڑے گا اس کو بھی
کہ میرے ساتھ پگھلنا پڑے گا اس کو بھی

درست ہے کہ وہ مجھ سے گریز پا ہے مگر
گروں گا میں تو سنبھلنا پڑے گا اس کو بھی

اٹوٹ دوستی نسبت تعلقات وفا
یہ کیسی آگ میں جلنا پڑے گا اس کو بھی

کسی بھی طرح سے اس پیار کو نبھانا ہے
اب اپنا آپ بدلنا پڑے گا اس کو بھی

مجھے کسی بھی سفر پہ نہ جانے دے گا کبھی
اسے خبر ہے کہ چلنا پڑے گا اس کو بھی