ہنوز رات ہے جلنا پڑے گا اس کو بھی
کہ میرے ساتھ پگھلنا پڑے گا اس کو بھی
درست ہے کہ وہ مجھ سے گریز پا ہے مگر
گروں گا میں تو سنبھلنا پڑے گا اس کو بھی
اٹوٹ دوستی نسبت تعلقات وفا
یہ کیسی آگ میں جلنا پڑے گا اس کو بھی
کسی بھی طرح سے اس پیار کو نبھانا ہے
اب اپنا آپ بدلنا پڑے گا اس کو بھی
مجھے کسی بھی سفر پہ نہ جانے دے گا کبھی
اسے خبر ہے کہ چلنا پڑے گا اس کو بھی

غزل
ہنوز رات ہے جلنا پڑے گا اس کو بھی
نجم الثاقب