سزا سے بچ کے کئی بار شاطروں کی طرح
میں اپنے سامنے آیا ہوں مجرموں کی طرح
وہ زخم جن کا بدن پر نشاں نہیں پڑتا
وہی تو کھلتے ہیں سپنوں میں روزنوں کی طرح
ہر ایک موڑ پہ تجدید عہد لازم تھا
وہ شخص تھا کوئی پر پیچ راستوں کی طرح
یہی خیال مجھے آ کے چیر پھاڑ گیا
ملے ہیں دوست بھی یوسف کے بھائیوں کی طرح
زمین پاؤں تلے ہے نہ آسماں سر پر
پڑے ہیں گھر میں کئی لوگ بے گھروں کی طرح
گیا تو کچھ نہ رہا میرے پاس جینے کو
غنیم تھا وہ جو آیا تھا دوستوں کی طرح
یہ اور بات کہ ظاہر میں کچھ نہیں لگتے
بلند و بالا ہیں کچھ لوگ پربتوں کی طرح
وہ راستے جو ترے ساتھ چل کے طے ہوتے
لپٹ گئے مرے پاؤں میں دائروں کی طرح
پلک جھپکنے میں اک عمر کٹ گئی نجمیؔ
گزر گئے ہیں کئی سال ساعتوں کی طرح

غزل
سزا سے بچ کے کئی بار شاطروں کی طرح
نجمی صدیقی