بدن کو جاں سے جدا ہو کے زندہ رہنا ہے
یہ فیصلہ ہے فنا ہو کے زندہ رہنا ہے
یہی نہیں کہ مرے گرد کھینچنی ہیں حدیں
مرے خدا نے خدا ہو کے زندہ رہنا ہے
ہزاروں لوگ تھے طوق انا سجائے ہوئے
فقط مجھے ہی رہا ہو کے زندہ رہنا ہے
مجھے تو خیر شب ہجر مار ڈالے گی
تمہیں تو مجھ سے جدا ہو کے زندہ رہنا ہے
درست ہے کہ جدائی میں موت آ جائے
مگر یہ کیا کہ خفا ہو کے زندہ رہنا ہے
کسی کو موت نہ آئی کسی کے مرنے پر
سبھی نے دکھ سے سوا ہو کے زندہ رہنا ہے

غزل
بدن کو جاں سے جدا ہو کے زندہ رہنا ہے
نجم الثاقب