شب کو آنکھوں میں ٹھہرتے کوئی کب تک دیکھے
بادباں خواب کا کھلتے کوئی کب تک دیکھے
اپنے ہی سائے سے باتیں کرے کب تک کوئی
اتنے چپ چاپ دریچے کوئی کب تک دیکھے
وہی آواز جو پتھر میں بدل دے مجھ کو
مڑ کے اس طرح سے پیچھے کوئی کب تک دیکھے
اتنی یادوں میں کوئی یاد سکوں دے نہ سکی
اس سمندر میں جزیرے کوئی کب تک دیکھے
خیر تم سا تو کہاں مجھ سا نہیں ہے کوئی
ہر طرف ایک سے چہرے کوئی کب تک دیکھے
دکھ بھرا شہر کا منظر کبھی تبدیل بھی ہو
درد کو حد سے گزرتے کوئی کب تک دیکھے
منزلیں ہم کو ملیں ہیں نہ ملیں گی لیکن
دھول ہوتے ہوئے رستے کوئی کب تک دیکھے

غزل
شب کو آنکھوں میں ٹھہرتے کوئی کب تک دیکھے
نجم الثاقب