سارے سوال آسان ہیں مشکل ایک جواب
ہم بھی ایک جواب ہیں کوئی سوال کرے
ندیم بھابھہ
کدھر کو جاؤں ہواؤں کی قید سے چھٹ کر
زمین تنگ ہوئی اور راستا غائب
ندیم گویائی
تو پانیوں میں ذرا ایسے ہاتھ پاؤں نہ مار
نکلنا دور رہا اور ڈوب جائے گا کچھ
ندیم گویائی
دنیا بدل گئی تھی کوئی غم نہ تھا مجھے
تم بھی بدل گئے تھے یہ حیرانی کھا گئی
ندیم گلانی
نہیں ہے جس کا حل اب تو کوئی ندیمؔ بس اک سوا تمہارے
میں ایک ایسا ہی مسئلہ ہوں مجھے دعاؤں میں یاد رکھنا
ندیم گلانی
تمام عمر ترے انتظار میں ہمدم
خزاں رسیدہ رہا ہوں بہار کر مجھ کو
ندیم گلانی
تجھ سے میں جنگ کا اعلان بھی کر ہی دوں گا
میرے دشمن تو مرے قد کے برابر تو آ
ندیم گلانی

