وصل نے جب مری تخلیق کو زنجیر کیا
ہجر کہنے لگا میں ساتھ ہوں تو لکھتا جا
تجھ سے میں جنگ کا اعلان بھی کر ہی دوں گا
میرے دشمن تو مرے قد کے برابر تو آ
مجھ سے ناداں کی کتابیں نہ سمجھ پائے ہیں
تو سمجھتا ہے یہ سمجھیں گے صحیفے اے خدا
ڈوب کر درد کے دریا میں اے میرے ہمدم
تجھ کو کیسے میں بتاؤں کہ میں نے کیا پایا
اشک باہر تو رواں آنکھ سے ہوتا ہے ندیم
سوچتا ہوں کہ یہ اندر میں کہاں سے آیا
غزل
وصل نے جب مری تخلیق کو زنجیر کیا
ندیم گلانی