دھواں سا کوئی ہواؤں میں سرسرائے گا کچھ
پھر اس کے بعد تجھے بھی نظر نہ آئے گا کچھ
میں جانتا ہوں کہاں تک ہے دسترس اس کی
جو بیت جائے وہی سب پہ آزمائے گا کچھ
فصیل سنگ کی محدودیت ہلاکت ہے
اڑا دے خود کو ہوا میں تو سنسنائے گا کچھ
تو پانیوں میں ذرا ایسے ہاتھ پاؤں نہ مار
نکلنا دور رہا اور ڈوب جائے گا کچھ

غزل
دھواں سا کوئی ہواؤں میں سرسرائے گا کچھ
ندیم گویائی