EN हिंदी
دھواں سا کوئی ہواؤں میں سرسرائے گا کچھ | شیح شیری
dhuan sa koi hawaon mein sarsaraega kuchh

غزل

دھواں سا کوئی ہواؤں میں سرسرائے گا کچھ

ندیم گویائی

;

دھواں سا کوئی ہواؤں میں سرسرائے گا کچھ
پھر اس کے بعد تجھے بھی نظر نہ آئے گا کچھ

میں جانتا ہوں کہاں تک ہے دسترس اس کی
جو بیت جائے وہی سب پہ آزمائے گا کچھ

فصیل سنگ کی محدودیت ہلاکت ہے
اڑا دے خود کو ہوا میں تو سنسنائے گا کچھ

تو پانیوں میں ذرا ایسے ہاتھ پاؤں نہ مار
نکلنا دور رہا اور ڈوب جائے گا کچھ