EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

یہ تو سمجھا میں خدا کو کہ خدا ہے لیکن
یہ نہ سمجھا کہ سمجھ میں مری کیوں کر آیا

مضطر خیرآبادی




یوں کہیں ڈوب کے مر جاؤں تو اچھا ہے مگر
آپ کی چاہ کا پانی نہیں بھرنا مجھ کو

مضطر خیرآبادی




زاہد تو بخشے جائیں گنہ گار منہ تکیں
اے رحمت خدا تجھے ایسا نہ چاہئے

مضطر خیرآبادی




زباں قاصد کی مضطرؔ کاٹ لی جب ان کو خط بھیجا
کہ آخر آدمی ہے تذکرہ شاید کہیں کر دے

مضطر خیرآبادی




زلف کا حال تک کبھی نہ سنا
کیوں پریشاں مرا دماغ ہوا

مضطر خیرآبادی




زلف کو کیوں جکڑ کے باندھا ہے
اس نے بوسہ لیا تھا گال کا کیا

مضطر خیرآبادی




دل کا شجر تو اور بھی پلنے کی آڑ میں
مرجھا گیا ہے پھولنے پھلنے کے نام پر

ندیم احمد