نہ جانے کون سی ساعت میں ہو گیا غائب
جو اندرون ٹٹولا تو لاپتہ غائب
کدھر کو جاؤں ہواؤں کی قید سے چھٹ کر
زمین تنگ ہوئی اور راستا غائب
وہ ایک ابر کی مانند میرے اوپر سے
ہوا کے ساتھ اڑا اور ہو گیا غائب
کسی بھی طور برابر نہ ہو سکی تقسیم
جو ایک سامنے آیا تو دوسرا غائب

غزل
نہ جانے کون سی ساعت میں ہو گیا غائب
ندیم گویائی