EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

چڑھا ہوا تھا وہ دریا اگر ہمارے لیے
تو دیکھتے ہی رہے کیوں اتر نہیں گئے ہم

احمد محفوظ




دامن کو ذرا جھٹک تو دیکھو
دنیا ہے کچھ اور شے نہیں ہے

احمد محفوظ




دیکھنا ہی جو شرط ٹھہری ہے
پھر تو آنکھوں میں کوئی منظر ہو

احمد محفوظ




گم شدہ میں ہوں تو ہر سمت بھی گم ہے مجھ میں
دیکھتا ہوں وہ کدھر ڈھونڈنے جاتا ہے مجھے

احمد محفوظ




ہم کو آوارگی کس دشت میں لائی ہے کہ اب
کوئی امکاں ہی نہیں لوٹ کے گھر جانے کا

احمد محفوظ




کہاں کسی کو تھی فرصت فضول باتوں کی
تمام رات وہاں ذکر بس تمہارا تھا

احمد محفوظ




کسی سے کیا کہیں سنیں اگر غبار ہو گئے
ہمیں ہوا کی زد میں تھے ہمیں شکار ہو گئے

احمد محفوظ