لوگ کہتے تھے وہ موسم ہی نہیں آنے کا
اب کے دیکھا تو نیا رنگ ہے ویرانے کا
بننے لگتی ہے جہاں شعر کی صورت کوئی
خوف رہتا ہے وہیں بات بگڑ جانے کا
ہم کو آوارگی کس دشت میں لائی ہے کہ اب
کوئی امکاں ہی نہیں لوٹ کے گھر جانے کا
دل کے پت جھڑ میں تو شامل نہیں زردی رخ کی
رنگ اچھا نہیں اس باغ کے مرجھانے کا
کھا گئی خون کی پیاسی وہ زمیں ہم کو ہی
شوق تھا کوچۂ قاتل کی ہوا کھانے کا
غزل
لوگ کہتے تھے وہ موسم ہی نہیں آنے کا
احمد محفوظ