زخم کھانا ہی جب مقدر ہو
پھر کوئی پھول ہو کہ پتھر ہو
میں ہوں خواب گراں کے نرغے میں
رات گزرے تو معرکہ سر ہو
پھر غنیموں سے بے خبر ہے سپاہ
پھر عقب سے نمود لشکر ہو
کیا عجب ہے کہ خود ہی مارا جاؤں
اور الزام بھی مرے سر ہو
ہیں زمیں پر جو گرد باد سے ہم
یہ بھی شاید فلک کا چکر ہو
اس کو تعبیر ہم کریں کس سے
وہ جو حد بیاں سے باہر ہو
دیکھنا ہی جو شرط ٹھہری ہے
پھر تو آنکھوں میں کوئی منظر ہو
غزل
زخم کھانا ہی جب مقدر ہو
احمد محفوظ