EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

ملنے دیا نہ اس سے ہمیں جس خیال نے
سوچا تو اس خیال سے صدمہ بہت ہوا

احمد محفوظ




مری ابتدا مری انتہا کہیں اور ہے
میں شمارۂ مہ و سال میں نہیں آؤں گا

احمد محفوظ




نہیں آسماں تری چال میں نہیں آؤں گا
میں پلٹ کے اب کسی حال میں نہیں آؤں گا

احمد محفوظ




شور حریم ذات میں آخر اٹھا کیوں
اندر دیکھا جائے کہ باہر دیکھا جائے

احمد محفوظ




سنا ہے شہر کا نقشہ بدل گیا محفوظؔ
تو چل کے ہم بھی ذرا اپنے گھر کو دیکھتے ہیں

احمد محفوظ




تاریکی کے رات عذاب ہی کیا کم تھے
دن نکلا تو سورج بھی سفاک ہوا

احمد محفوظ




اس سے ملنا اور بچھڑنا دیر تک پھر سوچنا
کتنی دشواری کے ساتھ آئے تھے آسانی میں ہم

احمد محفوظ