ادھر سے آئے تو پھر لوٹ کر نہیں گئے ہم
پکارتی رہی دنیا مگر نہیں گئے ہم
اگرچہ خاک ہماری بہت ہوئی پامال
برنگ نقش کف پا ابھر نہیں گئے ہم
حصول کچھ نہ ہوا جز غبار حیرانی
کہاں کہاں تری آواز پر نہیں گئے ہم
منا رہے تھے وہاں لوگ جشن بے خوابی
یہاں تھے خواب بہت سو ادھر نہیں گئے ہم
چڑھا ہوا تھا وہ دریا اگر ہمارے لیے
تو دیکھتے ہی رہے کیوں اتر نہیں گئے ہم
غزل
ادھر سے آئے تو پھر لوٹ کر نہیں گئے ہم
احمد محفوظ