EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

دشت میں وادئ شاداب کو چھو کر آیا
میں کھلی آنکھ حسیں خواب کو چھو کر آیا

احمد خیال




دل کسی بزم میں جاتے ہی مچلتا ہے خیالؔ
سو طبیعت کہیں بے زار نہیں بھی ہوتی

احمد خیال




ہوا کے ہاتھ پہ چھالے ہیں آج تک موجود
مرے چراغ کی لو میں کمال ایسا تھا

احمد خیال




کسی درویش کے حجرے سے ابھی آیا ہوں
سو ترے حکم کی تعمیل نہیں کرنی مجھے

احمد خیال




کوئی حیرت ہے نہ اس بات کا رونا ہے ہمیں
خاک سے اٹھے ہیں سو خاک ہی ہونا ہے ہمیں

احمد خیال




کوئی تو دشت سمندر میں ڈھل گیا آخر
کسی کے ہجر میں رو رو کے بھر گیا تھا میں

احمد خیال




مہکتے پھول ستارے دمکتا چاند دھنک
ترے جمال سے کتنوں نے استفادہ کیا

احمد خیال