کسی سے کیا کہیں سنیں اگر غبار ہو گئے
ہمیں ہوا کی زد میں تھے ہمیں شکار ہو گئے
سیاہ دشت خار سے کہاں دو چار ہو گئے
کہ شوق پیرہن تمام تار تار ہو گئے
یہاں جو دل میں داغ تھا وہی تو اک چراغ تھا
وہ رات ایسا گل ہوا کہ شرمسار ہو گئے
عزیز کیوں نہ جاں سے ہو شکست آئنہ ہمیں
وہاں تو ایک عکس تھا یہاں ہزار ہو گئے
ہمیں تو ایک عمر سے پڑی ہے اپنی جان کی
ابھی جو ساحلوں پہ تھے کہاں سے پار ہو گئے
غزل
کسی سے کیا کہیں سنیں اگر غبار ہو گئے
احمد محفوظ