EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

اسے بھلایا تو اپنا خیال بھی نہ رہا
کہ میرا سارا اثاثہ اسی مکان میں تھا

احمد محفوظ




یہیں گم ہوا تھا کئی بار میں
یہ رستہ ہے سب میرا دیکھا ہوا

احمد محفوظ




یہ جو دھواں دھواں سا ہے دشت گماں کے آس پاس
کیا کوئی آگ بجھ گئی سرحد جاں کے آس پاس

احمد محفوظ




یہ کیسا خوں ہے کہ بہہ رہا ہے نہ جم رہا ہے
یہ رنگ دیکھوں کہ دل جگر کا فشار دیکھوں

احمد محفوظ




یہ شغل زبانی بھی بے صرفہ نہیں آخر
سو بات بناتا ہوں اک بات بنانے کو

احمد محفوظ




زخموں کو اشک خوں سے سیراب کر رہا ہوں
اب اور بھی تمہارا چہرہ کھلا رہے گا

احمد محفوظ




اب شغل ہے یہی دل ایذا پسند کا
جو زخم بھر گیا ہے نشاں اس کا دیکھنا

احمد مشتاق