ہے وہم جیسے کوئی نقش یہ دہائی دے
یہ ضرب تیشہ مجھے سنگ سے رہائی دے
نتیجۂ دروں بینی تھا کس قدر بے کیف
کنویں میں دور تک اب ریت ہی دکھائی دے
حصار گوش سماعت کی دسترس میں کہاں
تو وہ صدا جو فقط جسم کو سنائی دے
یہ کس طلب کی ہوائیں مشام جاں میں چلیں
کہ جلتے گوشت کی خوشبو فقط سنگھائی دے
چلو کہ دونوں ہوں گرداب اتصال میں غرق
نہ جانے وقت کسے ساحل جدائی دے
ہرا بھرا ہی رہے گا وہ خواہشوں کا درخت
ہوا ہزار اسے برگ نارسائی دے
مصورؔ اس سے کہو عمر بھر نہ مل پائے
بڑا ہے جرم اذیت بھی انتہائی دے
غزل
ہے وہم جیسے کوئی نقش یہ دہائی دے
مصور سبزواری