برابر خواب سے چہروں کی ہجرت دیکھتے رہنا
گزر چکنے پہ بھی وہ شام رحلت دیکھتے رہنا
دھنک کی بارشیں برفاب شہروں پر نہیں ہوتیں
یہاں پھولوں کا رستہ عمر بھر مت دیکھتے رہنا
کتابوں کی تہوں میں ڈھونڈھنا نا دیدہ اشیاء کا
پلٹ کر پھر کوئی خالی عبارت دیکھتے رہنا
ہجوم شہر کے سناٹے میں گم صم وہ ٹیلہ سا
اسی کو آتے جاتے بے ضرورت دیکھتے رہنا
جسے میں چھو نہیں سکتا دکھائی کیوں وہ دیتا ہے
فرشتوں جیسی بس میری عبادت دیکھتے رہنا
مصورؔ کچھ نہ کہنے کا یہ دکھ بھی سخت ظالم ہے
طلب کر لے گی لفظوں کی عدالت دیکھتے رہنا
غزل
برابر خواب سے چہروں کی ہجرت دیکھتے رہنا
مصور سبزواری