تباہ کر گیا سب کو مرے گھرانے کا
وہی جنون ہتھیلی پہ پھول اگانے کا
ترے بغیر میں مر جاؤں گا یہی سچ ہے
نہیں ہے حوصلہ اب جھوٹ کو بچانے کا
ہمارے بیچ میں اک اور شخص ہونا تھا
جو لڑ پڑے تو کوئی بھی نہیں منانے کا
وہ ریگ ریگ سے اٹھتا تھا لہر لہر کی شکل
میں خواب دیکھتا تھا کشتیاں چلانے کا
ہوا سے بھول ہوئی تھی کہ پوچھ بیٹھی تھی
کبھی پتا مرے ہرجائی کے ٹھکانے کا
غزل
تباہ کر گیا سب کو مرے گھرانے کا
مصور سبزواری