EN हिंदी
لہو لہان تھا شاخ گلاب کاٹ کے وہ | شیح شیری
lahu-luhan tha shaKH-e-gulab kaT ke wo

غزل

لہو لہان تھا شاخ گلاب کاٹ کے وہ

مصور سبزواری

;

لہو لہان تھا شاخ گلاب کاٹ کے وہ
ہوا ہلاک چٹانوں کے خواب کاٹ کے وہ

میں گزرے وقت کے کس آسماں میں جیتا ہوں
گیا کبھی کا ہوا کی طناب کاٹ کے وہ

اسی امید پہ جلتی ہیں دشت دشت آنکھیں
کبھی تو آئے گا عمر خراب کاٹ کے وہ

ہوئے ہیں خشک بھری دوپہر کئی دریا
اس آرزو میں کہ رکھ دے سراب کاٹ کے وہ

گزشتہ شب سے جزیرے میں واردات نہیں
بھنور کو لے گیا یوں زیر آب کاٹ کے وہ