شہر کا روگ ہے جس سمت بھی بس جائے گا تو
کھلے صحراؤں کی آواز کو ڈس جائے گا تو
جب بھی یادوں کی زمستانی ہوا چیخے گی
اپنے برفیلے مکانوں میں جھلس جائے گا تو
سوختہ شام کی محمل ہوں میں جاتا ہے کہاں
ساتھ میرے ہی بہ انداز جرس جائے گا تو
آج میں اپنے تعاقب میں نکل جاؤں گا
کل مرے نقش کف پا کو ترس جائے گا تو
دیکھ وہ دشت کی دیوار ہے سب کا مقتل
اس برس جاؤں گا میں اگلے برس جائے گا تو
میں بجھی محفلوں کی ایش ٹرے کی اک پیاس
راکھ بن کر مرے ہونٹوں پہ برس جائے گا تو
اس قدر رسم و رہ جسم مصورؔ نہ بڑھا
اپنے ہی جسم کو اک روز ترس جائے گا تو
غزل
شہر کا روگ ہے جس سمت بھی بس جائے گا تو
مصور سبزواری